رات کے اس وقت کیوں آئے ہیں یہاں اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت برا ہوگا۔”دوپٹہ اچھے سے شانہ پر پھیلانے کے بعد بالوں کو سمیٹ کر جوڑے کی شکل میں لپیٹتے وہ خجالت کو سائیڈ پہ رکھتے اب کڑے تیوروں سمیت مخاطب ہوئی تو جواباً احد مرتضی نے گہرا سانس کھینچتے ہوئے اپنے بیٹھنے کو مناسب جگہ تلاش کر اسے بہت اطمینان سے جواب دیا تھا۔
“اس وقت کا انتخاب کرنے پہ تم نے مجبور کیا ہے۔”
“شٹ اپ۔”
اسے جیسے کرنٹ لگا تھا تیوری چڑھا کر اسے گھورنے لگی۔
“کیا فضولیات ہیں۔”
“فضولیات نہیں محترمہ پورا دن دستیاب جو نہیں ہوتی بندہ بات کرنے کو تو کیا دیکھنے کو بھی ترس جائے۔”
بے لگام لہجہ اس پر سہاگہ بہکتی مچلتی وارفتہ نگاہیں حیا نے بری طرح سے چونک کر بغور اسے دیکھا اور ٹھٹک سی گئی۔
“آپ کا کیا خیال ہے اس طرح میں اپ کو آسانی سے دستیاب ہو جاؤں گی۔” اس نے باقاعدہ آنکھیں نکالی تھیں۔
“ہو جاؤ گی کیا۔”
“ہو گئی ہوں۔”وہ جواب میں بہت زعم سے کہتا ہے اس کی انکھوں میں جارحانہ سے انداز میں جھانک کر جانے کیا باور کروا گیا تھا کہ حیا کے وجود میں سنسنی کا احساس دوڑنے لگا۔
“آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اگر مقصد مجھے خوفزدہ کرنا ہے تو میں۔”
“ارے نہیں ڈرو نہیں میں تو بہت صلح صفائی سے تم سے بات کرنے آیا ہوں۔”جواباً وہ جس پہ نیازی سے بولا تھا حیا نے لب بینچ کر شعلہ بار نظروں سے اسے گھورنے پر اکتفا کیا۔
“بے شک نکاح ہوا ہے مگر میں باقاعدہ رخصتی کی رسم ادا ہو جانے کے بعد ہی اپنا حق استعمال کرنا پسند۔۔۔”
“شٹ اپ یہ کس قسم کی فضول باتیں کرنے آئے ہیں آپ۔” اس کا چہرہ بے تحاشہ سرخ ہو کر دہکنے لگا تھا۔
DOWNLOAD LINK
Leave a Reply