Shararat by Nabila Aziz download complete urdu novel html 2025.

Novels Jahan is A Platform For All Members Who Loves Reading Urdu Digest Novels.Here Is Available Urdu Novels And Complete Monthly Digest New And Old.

Download link

SHARARAT BY NABILA AZIZ

رات اچھی خاصی گہری ہو چکی تھی جب اسے اپنے بیڈ روم میں جانےکا خیال آیا

وہ گھڑی میں ٹائم دیکھتےہوئےاٹھ کھڑا ہوااپنےدوست حسان کورخصت کرنےکےبعد وہ روم کی طرف بڑھا وہ سیڑھیاں طےکرتا ہوااپنے بیڈ روم میں آیا بیڈ روم کا دروازہ لوک کر کے پلٹاتو ٹھٹک کررہ گیا دلہن کے ساتھ ساتھ کمرے کا حلیہ بھی بگڑا ہوا تھا انتہائی خوبصورت پھولوں کی چادر نیچےزمین پرڈھیرتھی سائیڈٹیبل پر رکھےگئےگلدان ٹوٹ کر پھولوں سمیت زمیں پر بھکرے ہوئےتھے

ڈریسنگ ٹیبل کی ساری چیزیں اوندھی پڑی تھی

دلہن کااپنا دوپٹاآدھا صوفے پراورآدھا نیچےلٹک رہاتھا

سینڈل کہیں تھے پرس کہیں….

وہ ایک ایک قدم قدم بڑھاتاآگےآرہاتھا کہ نیچے کوئیچیز چرمرا کے رہ گئی اس نےقدم پیچے اٹھایا اوردیکھاوہ دلہن کا سونےکاگلوبند تھا جو اپنی نا قدری پررورہاتھا اسنےجھک کرگلابنداٹھایا اس کے کچھ موتی ٹوٹ گئےتھے

اس نےوہ گلوبند صوفے کے سامنے کرسٹل ٹیبل پر رکھ دیا

وہ خودبیڈپراوندھی لیٹی تھی چہرے پر تکیہ رکھا ہواتھا

مہروزکاپسندیدہ سلور کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا مگردوپٹاصوفے پرجھول رہاتھا وہ قدم بچابچا کربیڈ کےقرےب آیا

“ربیع”اس کی بھاری آوازبا آسانی اسکےکانوں تک پہنچی تھی

“ربیع” اس نےدوبارہ آواز دی مگروہ ٹس سے مس نا ہوئی

وہ جیسےہی تھوڑاقریب ہوااس کی نظر دلہن کہ کمر پر پڑی

پچھلا گلا خاصا گہراتھا دودھیارنگت سلوررنگ کوماند کررہی تھی اس نے بمشکل اپنی نظریں چرائی

“ہیلو سوگئی؟” اس نےہاتھ بڑھاکراسکابازو ہلایا

اس کےلمس سےیک دم کرنٹ کھا کراٹھ بیٹھی

“ڈونٹ ٹچ می مسٹر مہروزبخت” اس نے انگلی اٹھا کرکہا

” کیوں کیاتم میری بیوی نہیں ہو؟” وہ اسکی آنکھوں میں انکھیں ڈالتےہوئے کہنے لگا

” نہیں ہوں میں تمہاری بیوی….. نہیں ہوں سمجھے تم”وہ یک چلااٹھی

” توپھر یہاں میرےبیڈ روم میں کیاکر رہی ہو؟” وہ انتہائیاطمنان سےکہ رہا تھا

“سزابھگت رہی ہوں اپنے کیے کی سزا”وہ چبا کرکہنے لگی

مہروز اسے سرتاپا دیکھ کر رہ گیا

روئی روئی سرخ آنکھیں مٹا مٹاسامیک اپ کندھوں پر بکھرے شولڈر کٹنگ سلکی بال اوربنادوپٹے کے اجاگر ہوتی رعنائیاں نظر ہٹ نہیں رہی تھی…….

” تمہارے لیے سزا ہے مگر میرے لیے تو اللہ کی عطا کردہ ایک خاص نعمت ہو تم” اس نے گھمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اس کے گال کو چھوا وہ اس کے انداز پر بھڑک اٹھی

” کہا ہے نا مجھے ہاتھ مت لگانا۔ہاتھ پیچھے ہٹاؤ” اس نے سخت لہجے میں کہا

مہروز کے ہاتھ اس کی کمر کو چھو رہے تھے اسے ایسا لگا جیسے اس کے جسم پر بچھو رینگ رہے ہوں۔

“اتنا صبر نہیں ہے مجھ کہ میں آج کی رات پیچھے ہٹ جاؤں٬ بلکہ جو کل کی رات گزاری تھی وہ بھی خدا جانتا ہے” اس نے کہتے ہوئے اسے زور سے بھیچ لیا تھا

” میں کہ رہی ہوں مجھے ہاتھ مت لگاؤ” وہ پھنکار کر کہتی ہوئی اس پر جھپٹ پڑی وہ اسے اپنے ناخنوں سے نوچنے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے اس کے ہاتھ روک رہا تھا لیکن جیسے ہی ربیع کے ناخنوں نے اس کی گردن پہ خراش ڈالی وہ اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر سکا اور یکدم اس کا ہاتھ اٹھ گیا

وہ اس کے بھاری ہاتھ سے تھپڑ کھا کر پیچھے کی طرف بیڈ پر گری

” بس بہت ہوگیا تمہارا تماشا ہر چیز کی حد ہوتی ہے اپنی حد میں رہنا سیکھو” وہ پہلی بار یوں غصہ سے دھاڑا

” تم مجھے حد بتا رہے ہو؟ حد تم نے پار کی ہے” وہ تھپڑ کی تکلیف بھول کر پھر سیدھی کھڑی ہوئی

” مجھے حد پار کرنے کا راستہ تم نے دکھایا تھا” وہ زور دے کر بولا

“میں نے توایک شرارت کی تھی” وہ روہانسی ہوئی

” لیکن میں نے کوئی شرارت نہیں کی میں کل بھی سنجیدہ تھا آج بھی ہوں، تم کسی بھی کورٹ میں چلی جاؤ میرا قصور کہیں بھی ثابت نہیں ہوگا” اس نے چبا کر کہا

بس بہت ہوگیا تمہارا تماشا ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔اپنی حد میں رہنا سیکھو۔”وہ پہلی بار یوں غصے سے دھاڑا۔
“تم مجھے حد بتارہے ہو؟حد تم نے پار کی ہے۔”وہ تھپڑ کی تکلیف بھول کر پھر سیدھی کھڑی ہوئی۔
“مجھے حد پار کرنے کا راستہ تم نے دکھایا تھا۔”وہ زور دے کر بولا۔
“میں نے تو ایک شرارت کی تھی۔”وہ روہانسی ہوئی۔
“لیکن میں نے کوئی شرارت نہیں کی تھی۔میں کل بھی سنجیدہ تھا آج بھی ہوں۔تم کسی بھی کورٹ چلی جاؤ میرا قصور کہیں بھی ثابت نہیں ہوگا۔”اس نے چبا کر کہا۔
“تم اتنے بےقصور بھی نہیں ہو۔”وہ چیخی۔
“میں اتنا قصوروار بھی نہیں ہوں۔”اس نے کاندھے اچکائے۔
“تم پچھتاؤ گے اپنے فیصلے پہ۔”
“فلحال تو پچھتانے کا وقت تمہارا ہے۔”وہ پھر پرسکون ہوچکا تھا۔
“سید مہروز بخت تم نے خسارے کا سودا کیا ہے۔
“ہونہہ تمہیں کیا پتا کہ سب سے زیادہ فائدہ مجھے ہی حاصل ہوا ہے تمہاری صورت میں۔”وہ اس کے سراپے کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
“خوش فہمی ہے تمہاری۔”وہ نفرت سے بولی۔
“یہ تو بعد کی بات ہے نا کہ کون خوش فہم ہے اور کون غلط فہم؟پہلے تم یہ بتاؤ تم چینج کرو گی یا لائٹ آف کردوں؟”اس کے لہجے کا مفہوم وہ انجان ہوکر بھی سمجھ گئی تھی اور اس کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی اس کا خون کھول اٹھا تھا۔
“تم کہنا کیا چاہتے ہو۔؟”
“جو تم سمجھ چکی ہو۔”وہ کہتا ہوا اس کی طرف بڑھا لیکن وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
“میں ہنگامہ مچادوں گی اگر تم نے مجھے ہاتھ لگانے کی۔کوشش بھی کی تو۔”اس نے دھمکی دی۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Author: Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *