Novel Lines:
میں نے جس سے محبت کی اسی سے شادی کی۔شادی کے تیس سال بعد بھی میری بیوی مجھ سے اسی طرح محبت کرتی ہے جس طرح پہلے کرتی تھی۔ آج بھی میری ہر بات اس کے لیے فرمان کا درجہ رکھتی ہے۔ آج بھی اسے میرے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا پھر بھی پتا نہیں میں خوش کیوں نہیں ہوں۔ عجیب بات ہے نا مگر میرے ساتھ ایسا ہی ہے۔ اب شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کسی بیماری کا شکار ہوں یا پھر یہ سب کسی ڈپریشن کے زیر اثر لکھ رہا ہوں۔
آپ اب بھی غلطی پر ہیں، میں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح سے تندرست ہوں۔ کم از کم ہر ماہ ملک کے سب سے بہترین ہاسپٹل میں ہونے والا میرا چیک اپ تو یہی بتاتا ہے۔ میں ہفتے میں تین بار گالف کھیلتا ہوں۔ دو بار سوئمنگ کے لیے جاتا ہوں۔ شام کو گھر کے قریبی پارک میں ایک گھنٹہ کی واک بھی ضرور کرتا ہوں۔ کسی بھی شخص کو ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست رکھنے کے لیے کیا اتنا کافی نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے اب آپ مجھے قنوطی یا تاریک الدنیا قسم کا شخص سمجھ رہے ہوں گے۔ کوئی Introvert ٹائپ۔ ایسا بھی نہیں۔ میری ہر شام کسی نہ کسی فنکشن میں ہی گزرتی ہے۔ کبھی وہ گھر پر ہوتا ہے، کبھی کلب میں اور کبھی اپنی کمیونٹی کے کسی دوسرے شخص کے ہاں۔ میں اس لحاظ سے بھی بہت سوشل ہوں۔ ایک اچھی اور پرُسکون زندگی گزارنے کے لیے جتنے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ میرے پاس ہیں پھر بھی پتا نہیں میں خوش کیوں نہیں ہوں۔ ایک منٹ اب میں آپ سے کچھ غلط بیانی کر رہا ہوں۔ مجھے پتا ہے میں خوش کیوں نہیں ہوں مگر تیس سال بعد کسی کو اپنی ناخوشی کی وجہ بتانا کچھ عجیب نہیں ہے کم از کم مجھے تو بہت عجیب لگ رہا ہے۔ کیا آپ کو یقین آئے گا کہ پچھلے تیس سال میں ہر روز چند گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جب مجھے اپنا وجود کسی ٹھنڈی قبر میں اترا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جیتے جی قبر میں اترنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور پھر ہر روز۔ مگر بہت سی چیزیں آپ کے اختیار میں نہیں ہوتیں، آپ چاہیں بھی تو۔
خیر چھوڑیں اس تذکرے کو۔ میں دوبارہ قبر میں اترنا نہیں چاہتا۔
میں جانتا ہوں اس وقت آپ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو مجھے ناشکرا سمجھ رہے ہوں گے۔ہو سکتا ہے آپ کی تشخیص ٹھیک ہو شاید مجھے یہی بیماری لاحق ہے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں تو ٹھیک سمجھ رہے ہیں، مگر میں ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ کیا میں واقعی کسی پچھتاوے کا شکار ہوں۔ نہیں، نہیں آپ غلطی پر ہیں اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں کوئی متقی آدمی ہوں جس کی زندگی میں کوئی غلط کام ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پچھتاوا۔ میرے شش و پنج کی وجہ یہ نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ پچھتاوا تو باضمیر لوگوں کو ہوتا ہے۔ کیا میں اتنا باضمیر ہوں کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا ہے۔ اور کیا پچھتاوا کسی چیز کی تلافی کر سکتا ہے۔ آپ تلافی کے لفظ کو ایک بار پھر پڑھیے میں ”تلافی” کی بات کر رہا ہوں۔ ”تلافی” کی۔
میرا دل چاہتا ہے میں ایک بار ملیحہ سے یہ سوال پوچھوں۔ کیا کوئی چیز اس کے نقصان کی تلافی کر سکتی ہے؟
کیا کوئی چیز اس کے زیاں کا مداوا کر سکتی ہے؟
کیا کوئی چیز اس کے زخموں کے لیے مرہم بن سکتی ہے؟
کیا میرا کوئی عمل ببول کے ان کانٹوں سے اس کے وجود کو نجات دلا سکتا ہے جو میری وجہ سے اسے گرفت میں لیے ہوئے ہیں؟
میں جانتا ہوں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اگر ملیحہ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں تو کرتا کیوں نہیں۔ مجھے کس چیز نے روک رکھا ہے؟
سوال کرنے کے لیے اس شخص کا سامنے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں آپ کے دل میں خیال آیا ہوگا کہ سامنے ہوئے بغیر بھی کسی دوسرے شخص کے ذریعے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے، مگر پھر یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس دوسرے شخص کو اس بندے کا پتا ہو جس سے آپ سوال کر رہے ہیں۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ رابطے کی ایک صورت تحریری بھی تو ہوتی ہے۔ میں خط کے ذریعے بھی تو سوال کر سکتا ہوں۔ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں مگر خط لکھنے کے لیے بھی تو اس شخص کا پتا چاہیے ہوتا ہے اور میرے پاس ملیحہ سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، زندہ بھی ہے یا… میں ہمیشہ اس لفظ کی جگہ خالی رکھتا ہوں۔ اس طرح مجھے چند لمحے سانس لینے میں آسانی رہتی ہے۔
میں جانتا ہوں اب آپ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں کہ ملیحہ کون ہے؟ میرا اس کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ مجھ سے کون سی غلطی ہوئی ہے؟ مجھے کس بات کا پچھتاوا ہے؟ میں اس کے اتے پتے سے لاعلم کیوں ہوں؟
میرے پاس ان میں سے کسی سوال کا بھی جواب نہیں ہے۔ وہ کون تھی؟ میرا اس کے ساتھ کیا رشتہ تھا؟ مجھ سے کیا غلطی ہوئی تھی؟ مجھے کس بات کا پچھتاوا ہے؟ میں پچھلے تیس سال سے ان ہی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور تیس سال گزرنے کے باوجود میرے پاس ایک بھی سوال کا جواب نہیں ہے۔…