یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے جہاں تم اپنی گم شدہ محبت کا ماتم زور و شور سے مناؤ۔اگر اپنی محبت کا ماتم بنانا ہے تو خاموشی سے مناؤ ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت ہے۔”کاٹ دار لہجے میں کہتے ہوئے وہ بیڈ پہ بیٹھ کر پیروں کو جوتوں کی قید سے آزاد کرنے لگا
آئمہ کے تو تلوؤں سے لگی سر پر جا کر بجھی وہ تنک کر اس کے سر پر ا کھڑی ہوئی۔
“کیا کہا اپ نے ذرا دوبارہ فرمائیے گا۔”
“تمہارا نوکر نہیں اور اپنی بات دہرانا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا۔”قمیض کے اوپری دو بٹن کھولتے ہوئے بے حد بیزاری سے کہا گیا۔
“اور مجھے بھی ایسے جاہلانہ رویوں کی عادت نہیں ہے۔”
“آپ نے پڑھ لکھ کر جو چاند چڑھایا ہے اس سے تو ہم جاہل ہی بھلے ہیں۔”شاہزیب کا تحقیر آمیز لہجہ اس کی جان جلا گیا۔
“تم ایک نہایت ہی تنگ نظر دقیانوسی اور شکی انسان ہو کاش کاش میرے پاپا کی بات نہ مانی ہوتی۔” چلا کر کہتے ہوئے وہ پلٹنے لگی تو شاہزیب نے جھلا کر اس کا بازو دبوچا تھا۔ وہ لڑکھڑا کر اس کے پہلو میں ا گری تھی۔
“بیوی ہو بیوی بن کر رہو مجھے عورتوں کا یوں چلا کر بولنا سخت ناپسند ہے۔”اس سمے ایماء کو شاہ زیب کی سرخ انکھوں سے بےحد خوف محسوس ہوا۔
“میری شرافت لا نائجائز فائدہ مت اٹھاؤ سمجھی۔”جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑتا ہوا اٹھ کر وارڈروب کی طرف بڑھ گیا۔ ایماء نے اپنے بازو کو بائیں ہاتھ سے سہلایا جہاں ابھی بھی اس کی سخت گرفت کا احساس باقی تھا۔وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی ائی شدید گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔
“شاید یہ سب پاپا کو تنگ کرنے کی سزا ہے۔” گھٹنوں میں سردیے وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو گئی۔
Download link
👇
Leave a Reply