مجھے تم میں بلکل بھی دلچسپی نہیں ہے۔تم ابھی بہت چھوٹی ہو۔”وہ درشتی سے بولا۔
“آپ پلیز مما سے بات کریں ہماری شادی کی ورنہ مما میری شادی زبردستی فاروق کاپاڈیا سے کرانے والی ہیں۔”اس کی بات ان سنی کرتے وہ اس کے مقابل آگئی۔
“شوق سے کڑائیں تم یہ غلط فہمی دور کر لو کہ میں تم میں انٹرسٹڈ ہوں۔”وہ رکھائی سے بولا تو رویما ٹھٹھکی۔
“مذاق مت کریں زعیم۔”
“یہ مذاق نہیں حقیقت ہے رویما۔”وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے تلخی سے بولا۔
“میں نے تمہیں وہ توجہ دی جو تمہیں گھر سے ملنا چاہیے تھی تاکہ تم ٹھیک ہو جاؤ تمہارے ہاتھ تھامے تو محض اپنے شعبے کی تصدیق کے لیے کیونکہ تم سموکنگ کرتی تھی تمہاری انگلیوں پر سیگریٹ پکڑنے کا نشان تھا۔اس میں میرے جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا تم میری مریضہ تھی اور بس۔”وہ کچھ زیادہ ہی بےاعتنائی پر اتر ایا تھا۔
“اور بس۔۔؟”
“ہاں بس۔”اس کے اوپر چہرہ پھیکا پڑتا دیکھ کے زعیم کا دل پگھلنے لگا۔وہ بہت خوبصورت تھی اور معصوم بھی۔مگر یہ سٹیٹس یہ ماحول زعیم کو سوٹ نہیں کرتا تھا۔
“بے وقوفی مت کرو کہا میں اور کہا تم نہ تمہارا ماحول مجھے سوٹ کرتا ہے اور نہ میرے ماحول میں تم رہ سکتی ہو کل کو پچھتانے سے بہتر ہے آج پچھتا لیا جائے۔”
“زعیم پلیز سٹیٹس کے فرق کو بھول کے بات کریں میں آپ کے لیے سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں۔”وہ بے حد یقین سے بولی تو زعیم نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
“تم یہ بے وقوفی کرتی رہو میں اس میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا۔” وہ تلخی سے کہہ کے وہاں سے چلا گیا۔