Novel Lines
“میں کہہ رہی ہوں گاڑی روکو۔مجھے کہیں نہیں جانا۔پلیز سٹاپ اٹ۔”اس نے چلا کر کہتے ہوئے فراز کے کان کے پردے پھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
“فراز بخاری میں آخری بار کہ رہی ہوں گاڑی روکو۔ورنہ میں گاڑی سے چھلانگ لگادوں گی۔”اس نے ہینڈل پہ ہاتھ جمالیا تھا اور فراز نے اس کی نازک کلائی کو اپنے شکنجے میں جکڑلیا۔وہ مکمل اس کے شکنجے میں آچکی تھی۔
“جس منال کی تلاش میں تم نکلے ہو نا وہ دس دن پہلے ہی مرچکی ہے۔اس کی راکھ کریدوں گے نا تو چنگاریوں کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوگا۔تمہارے اپنے ہاتھ جھلس جائیں گے۔”منال نے رک کر طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“اور جس فراز کی تمہیں خبر تھی وہ بھی دس دن پہلے مرچکا ہے۔اب اس کے پاس ندامت کی راکھ ہے۔اس کی راکھ کریدو گی تو نفرت اور طنز کے سوا سب کچھ حاصل ہوگا۔”وہ حقیقتاً شرمندہ اور نادم دکھائی دے رہا تھا۔
“میں اب خواہشوں کے دیار سے نکل آئی ہوں۔مجھے اب کچھ بھی کریدنے کا اشتیاق نہیں۔پلیز میرے ہاتھ چھوڑو۔”اس نے کہنے کے ساتھ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی جو مسلسل ناکام ہوئی جارہی تھی۔
“مجھے ابھی بہت کچھ کہنا ہے اور تمہیں بہت کچھ سننا ہے۔”وہ اپنے انداز پہ قائم تھا۔منال بھڑک اٹھی۔
“تم کہنے سننے کا کونسا حق رکھتے ہو۔کیا اختیار ہے تمہارے پاس۔چھوڑو میرا ہاتھ چھوڑو۔پلیز مجھے بچاؤ۔”وہ چلانے لگی۔اس کا ہذیانی انداز کسی طرح قابو نہ آیا تو فراز کا ہاتھ اٹھ گیا۔منال ڈیش بورڈ سے جاٹکرائی۔