
Novel Lines
”
” صومیہ بہت پریشان ہے۔”“اوہ تو اصل بات یہ ہے۔آپ کو تو بہت تکلیف ہو رہی ہوگی۔” صومیہ کی پریشانی سے۔ وہ استہزائیہ انداز میں مسکرائی۔
“صومیہ کو اگر اتنی ہی تکلیف ہے تو اسے کہیں فوراً آکر مجھ سے بات کرے۔ آفٹر آل میں اس کے جان سے پیارے بھائی کی ہونے والی بیوی ہوں۔”
عیشہ اس کے انداز پر ناجانے کیوں وہ چیخ اٹھا۔
“عیشہ تم یہ سب کیوں کر رہی ہو۔ کیسے تم کسی اور سے شادی کر سکتی ہوں۔” اب کہ اس کی آواز میں تڑپ واضح محسوس کر سکتی تھی۔
“ویسے ہی جیسے تم کسی اور کے لئے مجھے چھوڑ سکتے ہو۔
عیشہ جانتا ہوں تم آفاق کو پسند نہیں کرتی۔ تم میرے علاوہ کیسے کسی کو پسند کر سکتی ہو۔” اس کی جھنجھلاہٹ اسے مزہ دے رہی تھی۔
“ارے تمہیں یہ غلط فہمی کیسے ہوئے ہوئی۔دولت سب کچھ کروا سکتی ہے اور میں تو پھر اس شہر کے نامور بزنس مین کی ہونے والی بیوی ہوں۔” اس نے بیوی پر زور دیا تھا۔
“شٹ اپ عیشہ۔”
“یو شٹ اپ مسٹر وہاب۔ اپنی آواز کو دھیما ہی رکھو اور تمہیں قاصد بننے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ آئندہ مجھے فون کرنا۔” اس نے سختی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔