
تم اکڑتی کس بات پر ہو اور کیوں میرے بیٹے زین کو مجھ سے دور کر رہی ہو۔”اندھیرے میں دونوں قریب کھڑے تھے۔
“جو بھی آپ سمجھ لیں میں کیا کہہ سکتی ہوں۔”اس شان بے نیازی سے کہا کہ آدم کو تپ ہی لگ گئی۔ آدم کا غصہ عروج پر پہنچ چکا تھا پہلے ہی وہ پریشان تھا۔
“کہاں جا رہی ہو۔”ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا تھا۔ساری چوڑیاں کرچ کی آواز کے ساتھ ٹوٹ گئی۔
“کیا بدتمیزی ہے چھوڑو میرا ہاتھ۔”تکلیف کی شدت محسوس ہوئی۔
“تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو۔”آدم نے قریب ہو کر لمبا سانس لیا اسے معلوم تھا آدم کی اس حرکت پر مہری کو بہت غصہ آتا ہے۔
“نہ چھوڑوں تو۔”دوسری کلائی بھی بازوں کے قبضے میں تھی۔
“چھوڑنا پڑے گا میں نے تمہیں کوئی ایسا حق نہیں دیا ۔”مہری چبا کر بولی۔
“تم سے میں نے حق مانگا کب ہے جب چاہوں اپنا حق وصول کر سکتا ہوں تمہاری اجازت بہرحال مجھے درکار نہیں سمجھی۔” ایک جھٹکے سے کہتے ہی آدم نے اسے چھوڑا تھا۔
“دیکھو میں کوئی صفائی نہیں پیش کروں گا اس بارے میں لیکن اتنا کہوں گا ذین کی مما کے ساتھ میری کوئی کمٹمنٹ نہیں تھی بس کسی سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا پڑا مجبوری تھی۔”آدم نے مصالحت آمیز انداز میں بات کی۔
“مجبوری تھی چاہو تو تیسری شادی بھی کر لو میں تمہیں اجازت دیتی ہوں لیکن میرا پیچھا چھوڑ دو اور مجھے گھر چھوڑ آؤ۔”
“یہ تمہاری خام خیالی ہے کہ میں تم سے دستبردار ہو جاؤں گا گھر چھوڑ کے آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور دوسری بات جب دوسری شادی تم سے پوچھ کر نہیں کی تو تیسری کیوں پوچھ کر کروں گا۔” آدم دھونس جماتے ہوئے بولا۔ اسے مہروالنساء پر غصہ آ رہا تھا۔مہروالنسا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
Download PDF Link Below…
👇