
Novel Lines
کیا مصیبت ہے بھئی یہ احتجاجی مظاہرہ کب تک
جاری رہے گا؟”
شادی کی تیسری رات بھی جب وہ آغا کے بیڈ روم کا اندرونی دروازہ کھول کر برابر والے کمرے میں سونے کی غرض سے قدم بڑھانے لگی تو وہ زچ ہو کر بول پڑا تھا۔
شد لالہ نے ایک کٹیلی نگاہ اس پر ڈالی۔
“مجھ پر اپنی جارہ داری قائم کرنا تھی۔سو کر لی۔ اب آپ کو اس سے کیا غرض کہ میں کہاں جا کے سوتی ہوں۔”
اس کی بات پر آغا معنی خیز نظریں اس پر جما کر آہستگی سے مسکراتا ہوا اس کے سامنے آگیا ۔ “کہاں قائم کرنے دی ہے اجارہ داری۔ساری حسرتیں دل کے تہہ خانے میں بند پڑی ہیں۔تمنائیں بے تاب اور آرزو میں بے قرار ہیں تمہارے وجود پر تسلط جمانے کو مگر…….”
اس نے دانستہ فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اور ہولے سے اس کے ماتھے پر جھولتی لٹ کو کھینچا۔
وہ جو اس کے سرگوشی کرتے لہجے کے خمار اور نویت پر پوری جان سے کانپ گئی تھی۔ اس کی سارت پر آگ بگولہ ہونے لگی۔ “زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
وہ سختی
سے کہہ کر لٹ چھڑانے لگی۔
“میں اس وقت اس سے بھی زیادہ فری ہونے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔”
وہ بر جستگی سے گویا ہوا پھر ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو تھام لیا۔ شہر لالہ کو جیسے کرنٹ سالگا۔ اس کی قربت اسے حواس باختہ کرنے لگی تھی۔ وہ بے دم ہونے لگی۔ ہاتھ بنائے۔ وہ نظر ملائے بنا اپنے بازو کو اس کی فولادی گرفت سے آز آزاد کرانے کی سعی کر رہی تھی۔
“اور تم یہ تکلف ہٹا دوناں۔”
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وارفتگی سے بولا۔
“مجھے بیوقوف بنانا اتنا آسان نہیں ہے آغا صاحب ! میں مفت میں ہاتھ آنے والا مال نہیں ہوں۔ آپ کی امارت آپ کی حیثیت شان و شوکت او وجاہت میری نظر میں کسی ایک چیز کی بھی اہمیت نہیں ہے۔ میں ان ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے والی لڑکی نہیں ہوں۔ اس چمک دمک سے کوئی عقل کا اندھا ہی متاثر ہو گا۔ صرف اپنے گھر والوں کے مفاد کی خاطر مجبوری کا سودا کیا ہے۔”اس کا بے چک اور قطعی انداز اپنے عروج پر تھا۔ آغا کو جھٹکا سا لگا، نظروں کی جوت بجھ گئی۔ وہ تو سمجھ رہا تھا وہ اس کے جذبوں کو پذیرائی بخش کر اس کے ساتھ شادی پر رضامند ہوئی ہے۔ جذبات سے سرشار دل یک دم ویران ہو گیا۔
“کس نے کہا تھا مجبوری کا سودا کرنے کو، نہ
کرتیں۔”
جذبوں پر انا کا نقاب چڑھا کر وہ درشتی سے بولا اور
اس کا بازو چھوڑ دیا۔
“تم نے بہر طور آغا پیس آنا ہی تھا میں جس کو ایک بار حاصل کرنے کا سوچ لوں اس کو اپنا بنا کر ہی دم لیتا ہوں۔”
“ہاں اور اب تو آپ کوے تین مرتبہ یہ سعادت حاصل کر چکے ہیں۔”