
Novel Description;
Novel Name: Rooh Ka Makeen
Published In: Shuaa Digest (June 2010)
Writer: Nabila Aziz
💖 A beautiful love story with an Amazing writing style, focusing on life after marriage.
👩❤️👨 Heroine: Aina Fairoz—her father married her mother as his second wife, while his first wife was a foreigner. Unfortunately, Aina’s mother passed away, and her father lives abroad. She resides with her uncle’s (Taya’s) family.
💞 Hero: Shahmeer, her uncle’s son. His mother (Aina’s aunt) dislikes Aina and constantly misguides everyone about Shahmeer’s character, turning him against her. Due to misunderstandings, he also starts disliking her.
📚 Shahmeer leaves the country for higher studies and returns after four years. The story unfolds beautifully with emotional twists and gripping moments.
💑 A heartwarming journey leading to a happy ending! ❤️✨
Download PDF Link Below….
Novel Lines
میرا خیال تھا مجھے تمہارے روبرو آنے کی نوبت نہیں آئے گی
اور معاملہ حل ہوجائے گا لیکن شاید تمہیں ایسا “منظور نہیں تھا۔
مجھے کیا منظور ہے کیا نہیں یہ جاننے والے”
آپ کون ہوتے ہیں۔ وہ ایکدم اس کی جانب مڑتے ہوئے چلائی تھی۔
میں کون ہوتا ہوں بہت جلد تمہیں بتادوں گا لیکن اس وقت میں تمہیں صرف
یہ باور کرانے آیا ہوں کہ اس طرح چیخ چلا کر سب کو پریشرائز کروا کر تمہیں
کچھ نہیں ملے گا۔ ہوگا وہی جو میں چاہوں گا اور ” میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بلبلا اٹھی تھی۔
ہرگز نہیں۔۔ میں۔۔ میں جانتی ہوں تم اس شادی پہ ” کس لیے زور دے رہے ہو
تاکہ بعد میں تم اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑھ سکو۔ تمہیں مزید سراہا جائے
لیکن۔۔ لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ شاہ میر نواز جتنی نفرت تم مجھ سے کرتے ہو
اس سے دس گناہ زیادہ نفرت میں تم سے کرتی ہوں۔ وہ مرجاؤں گی مگر تم سے
شادی نہیں کروں گی۔ چلے جاؤ یہاں سے میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔
آئی سے گیٹ لاسٹ فرام ہیئر۔ اس کا لہجہ انتہائی ہتک آمیز تھا اور دوسرے ہی ہل
شاہ میر کا بھاری ہاتھ زنائے سے اس کے چہرے پہ نقش ہوگیا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے بیڈ پہ
اوندھی گری اور شاہ میر کا دل اس کی تکلیف پہ تڑپ کر اس کی سمت لیکا تھا مگر اس
کو اپنے دل کی لگام کھینچ کر رکھنا پڑی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی نرمی اور اپنائیت سے بدظن تھی۔
یہ تھپڑ میں نے انکل پر چیخنے چلانے کیلیے مارا اہے۔ تمہیں اپنی بددماغی میں
بڑے چھوٹے کی تمیز بھول گئی ہے۔ نہ تمہیں اپنا احساس ہے نہ کسی اور کا۔
شاہ میر نے کہتے ہوئے اسے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا تھا