مجھ سے شادی کا اتنا ہی شوق تھا تو خود مجھ سے کہتی سنی کو استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔” تکیہ سیدھا کر کے لیٹتے اس نے سرسری نظر اس کے بنے سنورے روپ پہ ڈالتے کہا تھا۔ ایشاع نے جھٹکے سر اٹھایا تھا۔
“ایکسکیوز می سنی کو میں نے نہیں آپ نے استعمال کیا مجھ سے شادی کرنے کے لیے۔”وہ تڑخی تھی۔
وہ ہنسا۔”مائی گڈنس۔اتنی غلط فہمی کس بنا پر۔”
“اور اپ کو اتنی خوش فہمی کس بنا پہ اور جہاں تک شادی کا تعلق ہے مجھ میں ایسی کوئی کمی نہیں جو مجھے شادی کرنے کے لیے کسی کا سہارا لینا پڑے۔”اپنی بات مکمل کر کے وہ بیٹ سے اتر گئی تھی۔
ولیمہ کے بعد سارے کپلز ہنی مون کے لیے نکل چکے تھے شاہیار نے کام کا گھسا پٹا بہانہ کر کے جانے سے معذرت کر لی تھی وہ نہا کر نکلا تو وہ سنی کو ریڈی کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی تیار ہو چکی تھی۔وہ سنی کے سکول میں ہی ٹیچر تھی۔
“سنی اپنی ماما سے کہو اب انہیں مزید جاب کرنے کی ضرورت نہیں۔”ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے سنی سے کہتے در پردہ اسے حکم سنایا تھا وہ کلسی۔
“سنی اپنے پاپا سے کہو میں پہلے بھی یہ جاب کرتی تھی اب بھی کروں گی۔”وہ اسے مخاطب نہیں کرنا چاہتا تو وہ کون سا مری جا رہی تھی۔
“سنی اپنی ماما سے کہو کہ پہلے کی بات اور تھی اب وہ کوئی الہڑ دوشیزہ نہیں شادی شدہ خاتون ہے بہتر ہوگا اپنی نئی ذمہ داریوں کو سنبھالیں۔”
خود پہ پرفیوم سپرے کرتے اس نے استہزائیہ لہجے میں کہا تھا۔
“سنی اپنے پاپا سے کہو کہ۔۔۔”بس اس کے بعد شاہ یار نے ہاتھ اٹھا کر روکی تھی۔
“سنی اپنی ماما سے کہو مجھے بحث پسند نہیں اینڈ دیٹس اٹ۔”وہ بعد مکمل کرتا باہر نکل گیا تھا پیچھے اس کا غصے سے برا حال تھا۔
Download link
👇
Leave a Reply Cancel reply