کتنے میں خریدا ہے آپ نے مجھے۔”وہ طنز سے گویا ہوئی۔سے گویا ہوئی۔
“کیا مطلب ہے تمہارا۔”
“مطلب یہ کہ میں آپ کی زر خرید تو نہیں ہوں بیوی بنا کر لائے ہیں آپ مجھے کوئی ملازمہ نہیں۔”اس کا سابقہ انداز لوٹ ایا۔
“بیوی ہاہاہا۔”وہ دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگا۔رامش کو اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگا۔
“بڑی خوش فہمی ہے حقیقت یہ ہے محترمہ یہ آپ جیسی عورتیں سب کچھ بنائی جا سکتی ہیں مگر بیوی نہیں۔” وہ زہر خند لہجے میں بولے تھے۔
“شٹ اپ مجھ پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیے۔آپ کی وجہ سے ایک معصوم کی زندگی برباد ہو گئی آپ جیسے تھرڈ کلاس اور۔”وہ کچھ بولتے بولتے رک گئی۔
آشان رضا نے سگریٹ سے لگایا اور ڈیڑھ سارا دھواں اس کے چہرے پر چھوڑا وہ کھانسنے لگی۔
“تمہیں سگریٹ سے الرجی ہے یہی کہا تھا نا تم نے اور میں وہ ہر کام کروں گا۔جو تمہیں ناپسند ہے۔” رامش نے بڑے دکھ سے ان کی طرف دیکھا تھا۔بظاہر اتنا ڈیشنگ اور چارمنگ نظر انے والا شخص اندر سے کتنا مکار فریبی اور مکروہ چہرے کا حامل تھا۔ اف ایک ناپسندیدہ بندے کے ساتھ رہنے میں کتنا مشکل بوتا ہے اس کرب کی شدت کا اندازہ۔ اسے کچھ ہونے لگا تھا پاپا نے میرے ساتھ ہی اچھا نہیں کیا۔وہ جانتی تھی کہ اب شور مچانے اور چیخنے چلانے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کے جملہ حقوق آشان رضا کے پاس محفوظ تھے اور وہ بحیثیت شوہر اس کے ساتھ ہر قسم کا سلوک رواں رکھنے کے مجاز تھے۔
“میں نے خود سوچا تھا کہ تمہیں ایک بار تو اپنے سامنے ضرور جھکانا ہے اور شاید آج مگر نہیں رامش علی تم ساری عمر میری قربت کے لیے تڑپتی رہو گی۔ میں تمہیں بیوی کا درجہ نہیں دینا چاہتا میری بیوی تو کوئی اور ہوگی اور وہ بہت باکردار اور معصوم ہوگی۔”
“میں تھوکتی ہوں آپ جیسے شخص کی قربت پر اور مجھے آپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” وہ اپنا لہنگا سنبھالتے ہوئے بستر سے اتر گئی۔
“ہاں میں جانتا ہوں کہ تمہیں کس میں دلچسپی ہے۔”
“آپ الزام تراشیوں کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں ۔۔”وہ کلینزنگ ملک سے میک اپ صاف کرنے لگی۔زیورات وہ اتار چکی تھی آشان رضا بستر پر دراز ہو گئے۔
Download link
Leave a Reply