کون ہے وہ کمینہ جس نے میری بیوی کو اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔”ذیشان چلا کر کہہ رہا تھا جب کہ ملازمہ ایک طرف کھڑی ہے تماشہ دیکھ رہی تھی۔
“کون ہو تم اور میرے گھر میں کیوں کھڑے چلا رہے ہو۔” داور انتہائی درشتگی سے بولا۔سفیر حسن جانتے تھے کہ کسی ایس پی کا گھر ہے لہذا ذیشان کو خاموش رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے بظاہر نرم لہجے میں بولے۔
“دیکھو لڑکے ہم یہاں کوئی جھگڑا کرنے نہیں آئے تم بس ہماری بہو ہمارے حوالے کر دو۔”
“آپ کی بہو کون ہے۔آپ کی بہو۔” داور خاصے اچھنبے سے بولا۔
“وہی بے حیار ہے تمہارے پہلو میں کھڑی ہے وہ میری بیوی ہے۔”ذیشان نے جیسے داور کے سر پر بلاسٹ کیا تھا اس نے ششدر ہو کر اپنے قریب کھڑی شادلہ کو دیکھا۔
“یہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔”داور چکراتے ہوئے بولا۔
“داور یہ یہ جھوٹ بول رہا ہے میں اس کی کوئی بیوی نہیں ہوں اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اپ پلیز میرا یقین کریں بلکہ اپ ابھی اور اسی وقت نانو سے پوچھ لیں انہیں سب معلوم ہے۔”شادلہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے جلدی جلدی بولی۔
“اوہ تو وہ یہ ہے وہ شخص جس پر لٹو ہو کر تم نے مجھ سے پیچھا۔۔۔۔”
“شٹ اپ۔” داور ذیشان کی بات کاٹ کر زور سے دھاڑا۔
“آپ لوگ ابھی اسی وقت میرے گھر سے نکل جائیں اور رہی بیوی والی بات تو قانون اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ یہ لڑکی سچ کہہ رہی ہے یا تم جھوٹ بول رہے ہو۔”وہ ذیشان کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر دبنگ لہجے میں بولا۔
“دیکھو لڑکے۔۔”
“ایس پی داور احمد داؤد۔”سفیر حسن کی بعد درمیان میں اچکتے ہوئے بولا ایک لحظہ کو دونوں باپ بیٹے خاموش ہو گئے مقابل کوئی معمولی شخصیت کا حامل انسان نہیں تھا۔ان کے جاتے ہی وہ نانو کے سر ہوا۔
“نانو مجھے سب کچھ سچ سچ بتائیں کہ یہ محترمہ یہاں کیوں اور کس سے بھاگ کر آئی ہیں۔” داور کا کٹیلا اندازشادلہ کو بھی اندر سے کاٹ گیا۔
“ان کے شوہر اور سسر انہیں لینے ائے تھے۔”وہ خاصا جل کر بولا جب کہ یہ سن کر زویا اور فراد شوکڈ رہ گئے۔
Download link
👇
Leave a Reply