Pal Bhar Rasta Tay Karny Mein By Farhat Ishtiaq.

Novel Lines

تم دونوں میں سے بڑا کون ہے۔”انکل نے علی سے پوچھا تو وہ سر اٹھا کرانہیں دیکھنے لگی۔ان کے ساتھ بیٹھے مصطفی پہ اتفاقا ہی اس کی نگاہ پڑگئی تھی۔وہ چہرے پہ شرارت سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔وہ اس کے تاثرات سے چڑ سی گئی تھی۔ان کی بات پر اچانک ہی اسے ایک خیال سوجھا تو فوراً بولی۔
“علی مجھ سے پورے دس سال چھوٹا ہے۔”سات سال کو اس نے دس بالوں میں بدل دیا تھا۔تھوڑی بہت مبالغہ آڑائی میں کوئی حرج نہین۔چھبیس سالہ بھائی کی دس سالہ بڑی بہن یقیناً چھتیس سال ککی ہوگی۔یہاں تو اپنے پچپن سالہ بیٹوں کیلیے بھی اٹھارہ بیس سالہ لڑکی تلاش کی جاتی ہے تو چھتیس سال کی عمر میں اسے کون منہ لگائے گا۔اس نے اپنی جان بہت عمدگی سے چھڑالی تھی۔
“بچو جی اب لاکھ سر پٹخو تمہاری اماں کبھی بھی تمہاری بات نہیں مانیں گی۔”وہ اپنی سوچ پر مسکرادی تھی۔
“اور ہماری بیٹی کو کوکنگ کا کتنا شوق ہے؟”انکل نے پوچھا۔
“مجھے بھی کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے۔بس گزارا ہو ہی جاتا ہے۔”اسے اپنی بڑائیاں کرنے میں بہت مزہ آرہا تھا۔
“تمہیں ٹائم بھی کہاں ملتا ہوگا ڈاکٹرز کی لائف تو کتنی بڑی اور ٹف ہوتی ہے۔”آنٹی نے سنجیدگی سے کہا۔مرتضی نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“شوق ہو تو انسان ٹائم بھی نکال ہی لیتا ہے۔اصل میں مجھے شوق ہی نہیں ہے۔”وہ چاہتی تھی کہ اس کے جانے کے بعد مرتضی کی ماما کا اس کیلیے جو تبصرہ ہو وہ کچھ یوں ہو۔
“صرف ڈاکٹری کو لے کر ہمیں چاٹنا ہے کیا۔نہ سگھر نہ سلیقہ مند اور اوپر سے عمر رسیدہ۔نہ بابا مجھے منظور نہیں۔”یہاں سے واپسی پہ جھوٹ بولنے پہ وہ علی کو کیسے فیس کرے گی اس بات سے قطع نظر وہ اس وقت بہت خوش تھی۔


Download link

PAL BHAR RASTA TAY KARNY MEI BY FARHAT ISHTIAQ

Novel Review By Rabia Kashif

پل بھر راستہ طے کرنے میں از فرحت اشتیاق کرن ڈائجسٹ دسمبر 2000  فرحت اشتیاق ہمیشہ سے ہی پسندیدہ لکھاریوں میں شامل رہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولز میں ہمیشہ ایک بیحد خوبصورت اور رومانوی دنیا کی سیر کروائی ہے، انکی محبت اور رومان پرور تحریریں پڑھ کر ہمیشہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔  یہ ناول انکی ابتدائی تحریروں میں سے ایک بہت خوبصورت ناول ہے۔ بہن کی بے لوث قربانی اور بھائی کی بے پناہ محبت کی جھلک دکھاتا یہ ناول پڑھ کر آج بھی دل خوش ہو جاتا ہے۔  کہانی دو بہن بھائی علی اور تائبہ کے گرد گھومتی ہے، والدہ کی وفات کے بعد تائبہ نے خود سے سات سال چھوٹے “علی” کو ماں کی طرح پالا ہے اور اب بھی ایک ماں کی طرح ہر وقت اسکی فکر میں رہتی ہے جبکہ علی کی خواہش ہے کہ ڈاکٹر “تائبہ” گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر صرف اپنے بارے میں سوچے اور اپنی زندگی کا اہم فیصلہ لے مگر تائبہ کسی بھی طرح شادی پہ راضی نہیں ہے۔۔  ناول کا دوسرا اہم کردار ہیرو “مرتضی” ہے، مجھے مرتضی نامی کردار میں بن روئے آنسو کے “ارتضی” کی بہت جھلک دیکھائی دی۔ ویسا ہی سلجھا ہوا، پڑھا لکھا، باوقار اور محبت کرنے والا انسان، جو علی کا باس بھی ہے۔  آرکیٹکٹ کی دنیا کی دلفرہب منظر نگاری، تائبہ اور مرتضی کی پرکشش کردار سازی، سنسی خیز حالات کے اتار چڑھاؤ اور مستزاد بہترین انداز بیان، ایسے عوامل ہیں جو مل کر اسے ایک بہترین تحریر بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔  خوشگوار اختتام کے ساتھ ایک مختصر اور خوبصورت کہانی ہے۔ ضرور پڑھیں۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Author: Admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *