سنا ہے شادی کیلیے آپ کو ایک عدد لاوارث بندے کی تلاش ہے۔وہ جس کے آگے پیچھے بھی کوئی نہ ہو۔نہ ماں باپ نہ بہن بھائی۔”آہستہ آواز میں لیکن بڑے کڑک انداز میں کہا گیا تھا۔
“اور سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ آپ کو سسرالی رشتے زہر لگتے ہیں اس لیے آپ ایک انجانے اور ان دیکھے شخص کا رشتہ قبول کرنے کیلیے تیار ہوگئیں۔محض اس وجہ سے کہ وہ اپنے گھر میں اکیلا رہتا ہے۔حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک آپ کو ایک ایسا گھر جہاں بہت سے لوگ تھے اور بہت سے رشتے تھے۔آئیڈیل لگا کرتا تھا۔آپ کو وہ گھر اپنا ہی گھر لگا کرتا تھا سوچ کی اس اچانک تبدیلی کو کیا نام دیا جائے؟قول اور فعل کا تضاد یا پھر مجھ سے پیچھا چھڑوانے کی ایک احمقانہ کوشش۔”اس طنزیہ جملے کے اختتامی حصے نے اسے قدرے مشتعل کردیا تھا۔
“اپنے انتہائی پرسنل معاملات کے بارے میں۔میں نے آپ سے کوئی رائے نہیں مانگی۔میں شادی کس سے کررہی ہوں اور کیوں کررہی ہوں۔یہ سراسر میرا ذاتی معاملہ ہے۔”
“مجھے کوئی رائے دینے کیلیے تمہاری اجازت درکار بھی نہیں ہے۔”طنزیہ انداز ترک کرکے وہ بھی غصے میں آگیا تھا۔
“اور تمہارے ذاتی معاملات کی کیا بات ہے۔مجھ سے کسی بھی طرح تمہاری جان چھوٹ جائے چاہے اس کیلیے تمہیں چراغ دین کے آٹھ بچوں کی اماں ہی کیوں نہ بننا پڑجائے۔تم وہ رشتہ خوشی خوشی قبول کرلو گی۔”
وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا غرایا۔اپنا نام گھر میں کام کرنے والے مالی کے ساتھ جوڑے جانے پر اس نے طیش کے عالم میں اس کی طرف دیکھا۔
“اس کے گھر میں بھی تمہیں سسرالی رشتوں کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا پڑے گا بس اس کے بچے ہی تو ہونگے وہاں پر۔کہو تو تمہارے لیے وہاں کوشش کروں۔”اس کا انداز استہزائیہ بلکہ کسی حد تک ہتک آمیز تھا۔
Download link
Leave a Reply Cancel reply