میری بیوی ہے میں ہاتھ اٹھاؤں یا گلہ دباؤں تمہیں مطلب۔”
“بیوی ہے کوئی زرخرید غلام نہیں ہے۔”
“تمہیں بڑا درد ہورہا ہے۔کہیں تم بھی تو اس کی خوبصورتی کے عاشق نہیں ہوگئے۔”عنایہ نے تڑپ کر اسے دیکھا البتہ نومی چیخ اٹھا۔
“بکواس بند کریں حماد بھائی۔!”
“میرے منہ لگتا ہے۔”حماد اسے چھوڑ کر نومی پہ پل پڑا تھا اور اگلے لمحے دونوں گتھم گتھا ہوگئے تھے۔حماد کی ماں بہنوں نے بڑی مشکل سے دونوں کو الگ کیا تھا۔اس نے دبوچنے کے انداز میں عنایہ کا بازو پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آیا۔
“چھوڑو مجھے حماد۔”کمرے میں آتے ہی اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
“حد ہوتی ہے کسی بات کی۔میں اب تک خاموش تھی لیکن اب نہیں رہوں گی۔”
“کیا کرو گی۔”وہ دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکاتے ہوئے بغور اسے دیکھنے لگا۔
“میں چلی جاؤں گی یہاں سے۔”وہ اس کی بات سن قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
“تمہاری واپسی کے سارے راستے خود بند کرآیا ہوں۔اب تم نے مرنا بھی یہی ہے اور جینا بھی یہی ہے۔یہی تمہارا مقدر ہے جو حماد نے تمہارے لیے لکھا ہے۔”اس کے تکبر بھرے انداز پہ وہ کتنی دیر تک اسے ہی دیکھتی رہی۔
“کیا دیکھ رہی ہو۔کھا جاؤ گی مجھے۔۔او۔۔میں تو ڈر گیا۔”وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔
“کہاں جارہی ہو۔”اسے باہر جاتا دیکھ اس نے اس کا بازو پکڑا۔
“چھوڑو مجھے۔”
“چھوڑ دوں تمہیں تاکہ جو تم نے نیا عاشق بنایا ہے اس کے پاس جاکر اپنے حسن کے قصیدے سن سکو اور ایک دن میرے منہ پہ کالک مل کر چلی جاؤ جیسے اپنے باپ بھائیوں کے منہ پہ مل کر آئی ہو۔”عنایہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔بڑے بےساختہ انداز میں اس کا ہاتھ اٹھا تھا اور یہ حماد کیلیے بلکل ناقابل یقین تھا۔
Download link
Leave a Reply Cancel reply