میں تم سے بہتر سمجھتا ہوں کہ میری بیٹی کیلیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔”ذوہیب نے دکھی نظروں سے انہیں دیکھا۔
“ابو!ذوہا کی خوشی غزنوی میں ہے۔”
“غلط فہمی ہے تمہاری۔ذوہا کی خوشی عثمان میں ہے۔”
تب ہی ذوہیب کی نظر اس پہ پڑی وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور بازو سے پکڑ کر ان کے سامنے لے آیا۔
“کیا غزنوی سے علیحدگی کا دکھ اس کے چہرے پہ آپکو نظر نہیں آرہا۔”تنویر صاحب نے اس کا چہرہ دیکھا جس کی نظریں جھکی تھیں لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا ہو۔انہوں نے اس پر سے نظریں ہٹا کر جیسے حقیقت سے نظریں چرائی۔
“جو میں نے کہا تھا کہ دیا غزنوی سے میں نے کہا تھا کہ طلاق دے دے لیکن وہ نہیں مانا اس لیے مجھے خلع کے پیپرز تیار کروانے پڑے۔ذوہا ان پہ سائن کردے تو میں انہیں کورٹ میں جمع کروادوں گا۔”ذوہا نے ساکت نظروں سے باپ کو دیکھا۔
“ابو۔”ذوہیب کا منہ حیرت سے کھل گیا جبکہ طاہرہ نے بےاختیار سینے پہ ہاتھ رکھا۔منیب نے تنویر صاحب سے نظریں ہٹا کر ذوہا کو دیکھا جو کانپ رہی تھی۔اس نے تیزی سے اس کے قریب جاکر اسے تھام لیا۔
“ذوہا سائن نہیں کرے گی۔”ذوہیب غصے سے بولا۔
“اگر ذوہا نے سائن نہیں کیے تو میں ساری عمر اس کی شکل نہیں دیکھوں گا۔”ذوہا نے مضبوطی سے ذوہیب کا بازو تھاما۔
“اور ذوہیب اگر اب تم نے مزید بحث کی تو تم بھی سمجھ لینا کہ آج سے تم بھی یتیم ہو۔”ذوہیب اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔
Download link
Leave a Reply Cancel reply